Monday, 09 November 2020
  0 Replies
  3.3K Visits
0
Votes
Undo
  Subscribe
قادیانی جماعت قادیانی لیڈر کی نظر میں

قادیانیوں کا لیڈر موصلح موعود اپنی جماعت کو کن لفظوں میں یاد کرتا ہے آئیے دیکھتے ہیں





خصی جماعت

حضرت مسیح موعود فرمایا کرتے تھے: ''سچا مومن خصی ہو جاتا ہے۔'' پس حکومت کے افسروں کو، پولیس اور سول کے حکام کو اور احراریوں کو معلوم ہونا چاہیے کہ باوجود ان اشتعال انگیزیوں کے جو وہ کر رہے ہیں، ہم بالکل پرُامن ہیں، کیونکہ ہم سچے مومن ہیں اور مومن خصی ہو جاتا ہے۔



تقریر مرزا محمود سابق خلیفۂ قادیان، ''الفضل'' قادیان جلد 22، نمبر 87، صفحہ 5، مورخہ 20 جنوری 1935ئ







سُوروں کی جماعت

مجھے نہایت ہی افسوس سے معلوم ہوا کہ ''جامعہ احمدیہ'' میں جو طلبا تعلیم پاتے ہیں، انھیں کنوئوں کے مینڈکوں کی طرح رکھا گیا ہے۔ ان میں کوئی وسعت خیال نہ تھی۔ ان میں کوئی شاندار امنگیں نہ تھیں اور ان میں کوئی روشن دماغی نہ تھی۔ میں نے کرید کرید کر ان کے دماغ میں داخل ہو جانا چاہا۔ مگر مجھے چاروں طرف سے ان کے دماغ کا راستہ بند نظر آیا اور مجھے معلوم ہوا کہ سوائے اس کے کہ انھیں کہا جاتا ہے۔ وفاتِ مسیح کی یہ آیتیں رٹ لو یا نبوت کے مسئلہ کی یہ دلیلیں یاد کر لو، انھیں اور کوئی بات نہیں سکھلائی جاتی…… ۔۔۔اور جب بھی میں نے ان سے امنگ پوچھی تو انھوں نے جواب دیا کہ ہم تبلیغ کریں گے، اور جب سوال کیا کہ کس طرح تبلیغ کرو گے، تو یہ جواب دیا کہ: ''جس طرح بھی ہوگا تبلیغ کریں گے۔'' یہ الفاظ کہنے والوں کی ہمت تو بتاتے ہیں مگر عقل تو نہیں بتاتے۔ الفاظ سے یہ تو ظاہر ہوتا ہے کہ کہنے والا ہمت رکھتا ہے مگر یہ بھی ظاہر ہو جاتا ہے کہ کہنے والے میں عقل نہیں اور نہ وسعت خیال ہے۔ ''جس طرح ہوگا'' تو سُور کیا کرتا ہے۔ اگر سُور کی زبان ہوتی اور اس سے پوچھا جاتا کہ تُو کس طرح حملہ کرے گا تو وہ یہی کہتا کہ: ''جس طرح ہوگا کروں گا۔ پس سور کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ سیدھا چل پڑتا ہے۔ آگے نیزہ لے کر بیٹھو تو نیزہ پر حملہ کر دے گا۔ بندوق لے کر بیٹھو تو بندوق کی گولی کی طرف دوڑتا چلا آئے گا۔ پس یہ تو سوروں والا حملہ ہے کہ سیدھے چلے گئے اور عواقب کا کوئی خیال نہیں کیا۔''



(تقریر مرزا محمود خلیفہ قادیان مندرجہ اخبار ''الفضل'' جلد 22 نمبر 89 صفحہ 8 مورخہ 24 جنوری 1935ئ)



کیا خراجِ تحسین پیش کیا گیا ہے، اپنے سادہ لوح مریدوں کو! ویسے خلیفہ صاحب اگر غور کرتے تو اسی نتیجے پر پہنچتے کہ اگر ان کے فدائیوں میں عقل و شعور نام کی کوئی چیز ہوتی تو وہ قادیانیت سے وابستہ ہی کیوں رہتے ویسے بھی جس گائوں میں بے وقوف نہیں ہوتے، اس کے ٹھگ بھوکے مرجاتے ہیں جناب







جماعت میں بہت کمی ہے

بیان کیا مجھ سے مولوی سید محمد سرور شاہ صاحب نے کہ ایک دفعہ کسی کام کے متعلق میر صاحب یعنی میر ناصر نواب صاحب کے ساتھ مولوی محمد علی صاحب کا اختلاف ہوگیا۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ لیکن جو ہماری بعثت کی اصل غرض ہے۔ اس کے متعلق ابھی تک جماعت میں بہت کمی ہے اور بڑی توجہ کی ضرورت ہے۔ پس یہ خیال ہے جو مجھے آج کل کھا رہا ہے اور یہ اس قدر غالب ہورہا ہے کہ کسی وقت بھی مجھے نہیں چھوڑتا۔''



(سیرت المہدی جلد اول صفحہ 254 از مرزا بشیر احمد ابن مرزا قادیانی)







بے حیا اور بزدل جماعت

کیا تمھیں شرم نہیں آتی کہ تم ایک سخت بدلگام دشمن کا جواب دے کر اس سے حضرت مسیح (یعنی مرزا قادیانی) کو گالیاں دلواتے ہو اور پھر خاموشی سے گھروں میں بیٹھ رہتے ہو۔ اگر تم میں ایک رائی کے دانہ کے برابر بھی حیا ہے اور تمہارا سچ مچ یہ عقیدہ ہے کہ دشمن کو سزا دینی چاہیے تو پھر یا تم دنیا سے مٹ جائو یا گالیاں دینے والوں کو مٹا ڈالو۔ مگر ایک طرف تم جوش اور بہادری کا دعویٰ کرتے ہو اور دوسری طرف بزدلی اور دُوں ہمتی کا مظاہرہ کرتے ہو۔



Read full article
There are no replies made for this post yet.
Back To Top