Monday, 09 November 2020
  0 Replies
  3.8K Visits
0
Votes
Undo
  Subscribe

قادیانیوں سے مکمل بائیکاٹ پر دیوبندی مکتبہ فکر کامئوقف

بلاشبہ قرآن کریم کی وحی قطعی جناب رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم کی احادیث متواترہ قطعیہ اور امت محمدیہ کے قطعی اجماع سے ثابت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا۔ اس لئے حضرت نبی کریم صلی ﷲ علیہ وسلم کے بعد نبوت کا مدعی کافر اور دائرہ اسلام سے قطعاً خارج ہے اور جو شخص اس مدعی نبوت کی تصدیق کرے اور اسے مقتداء و پیشوا مانے وہ بھی کافر اور مرتد اور دائرہ اسلام سے خارج ہے۔ اس کفر اور ارتداد کے ساتھ اگر اس میں وجوہ مذکور فی السوّال میں سے ایک وجہ بھی موجود ہو تو قرآن کریم اور احادیث نبویہ صلی ﷲ علیہ وسلم اور فقہ اسلامی کے مطابق وہ اسلامی اخوت اور اسلامی ہمدردی کا ہرگز مستحق نہیں۔ مسلمانوں پر واجب ہے کہ اس کے ساتھ سلام و کلام، نشست و برخاست اور لین دین وغیرہ تمام تعلقات ختم کر دیں۔ کوئی ایسا تعلق یا رابطہ اس سے قائم کرنا جس سے اس کی عزت و احترام کا پہلو نکلتا ہو یا اس کو قوت و آسائش حاصل ہوتی ہو جائز نہیں۔ کفار محاربین اور اعداء اسلام سے ترک موالات کے بارے میں قرآن حکیم کی بے شمار آیات موجود ہیں۔ اسی طرح احادیث نبویہ اور فقہ میں اس کی تفصیلات موجود ہیں۔



یہ واضح رہے کہ کفار محاربین جو مسلمانوں سے بر سر پیکار ہوں، انہیں ایذا پہنچاتے ہوں، اسلامی اصلاحات کو مسخ کر کے اسلام کا مذاق اڑاتے ہوں اور مار آستین بن کر مسلمانوں کی اجتماعی قوت کو منتشر کرنے کے درپے ہوں۔ اسلام ان کے ساتھ سخت سے سخت معاملہ کرنے کا حکم دیتا ہے۔ رواداری کی ان کافروں سے اجازت دی گئی ہے جو محارب اور موذی نہ ہوں۔ ورنہ کفار محاربین سے سخت معاملہ کرنے کا حکم ہے۔ علاوہ ازیں بسا اوقات اگر مسلمانوں سے کوئی قابل نفرت گناہ سرزد ہو جائے تو بطور تعزیر و تادیب ان کے ساتھ ترک تعلق اور سلام و کلام و نشست و برخاست ترک کرنے کا حکم شریعت مطہرہ اور سنت نبوی میں موجود ہے۔ چہ جائیکہ کفار محاربین کے ساتھ۔ اس سلسلہ میں سب سے پہلے تو اسلامی حکومت پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ ان فتنہ پرداز مرتدین پر ’’ من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘ کی شرعی تعزیر نافذ کر کے اس فتنہ کا قلع قمع کرے اور اسلام اور ملت اسلامیہ کو اس فتنہ کی یورش سے بچائے۔



چنانچہ رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین رضی ﷲ عنہم نے فتنہ پرداز موذیوں اور مرتدوں سے جو سلوک کیا وہ کسی سے مخفی نہیں اور بعد کے خلفاء اور سلاطین اسلام نے بھی کبھی اس فریضہ سے غفلت اور تساہل پسندی کا مظاہرہ نہیں کیا۔ لیکن اگر مسلمان حکومت اس قسم کے لوگوں کو سزا دینے میں کوتاہی کرے یا اس سے توقع نہ ہو تو خود مسلمانوں پر یہ فرض عائد ہوتا ہے۔ تاکہ وہ بحیثیت جماعت اس قسم کی سزا کا فیصلہ کریں جو اس کے دائرہ اختیار میں ہو۔ الغرض ارتداد، محاربت، بغاوت، شرارت ، نفاق، ایذائ، مسلمانوں کے ساتھ سازش، یہود و نصاریٰ و ہنود کے ساتھ ساز باز، ان سب وجوہ کے جمع ہو جانے سے بلاشبہ مذکورہ فی السوال فرد یا جماعت کے ساتھ مقاطعہ یا بائیکاٹ نہ صرف جائز ہے بلکہ واجب ہے، اگر مسلمانوں کی جماعت بہیئت اجتماعی اس فتنہ کی سرکوبی کے لئے مقاطعہ یا بائیکاٹ جیسے ہلکے سے اقدام سے بھی کوتاہی کرے گی تو وہ عنداللہ مسئول ہو گی۔



یہ مقاطعہ یا بائیکاٹ ظلم نہیں بلکہ اسلامی عدل و انصاف کے عین مطابق ہے۔ کیونکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کی محاربت اور ایذاء رسانی سے محفوظ کیا جائے۔ اور ان کی اجتماعیت کو ارتداد و نفاق کے دستبرد سے بچایا جائے۔ اس کے ساتھ ہی ساتھ خود ان محاربین کے لئے بھی اس میں یہ حکمت مضمر ہے کہ و ہ اس سزا یا تادیب سے متاثر ہو کر اصلاح پذیر ہوں اور کفرو نفاق کو چھوڑ کر ایمان و اسلام قبول کریں۔ اس طرح آخرت کے عذاب اور ابدی جہنم سے ان کو نجات مل جائے، ورنہ اگر مسلمانوں کی ہئیت اجتماعیہ ان کے خلاف کوئی تادیبی اقدام نہ کرے تو وہ اپنی موجودہ حالت کو مستحسن سمجھ کر اس پر مصر رہیں گے اور اس طرح ابدی عذاب کے مستحق ہوں گے۔



رسول اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے مدینہ پہنچ کر ابتداء ً یہی طریقہ اختیار فرمایا تھا کہ کفار مکہ کے قافلوں پر حملہ کر کے ان کے اموال پر قبضہ کیا جائے تاکہ مال اور ثروت سے ان کو جو طاقت اور شوکت حاصل ہے وہ ختم ہو جائے۔ جس کے بل بوتے پر وہ مسلمانوں کو ایذاء پہنچاتے ہیں اور مقابلہ کرتے ہیں اور مختلف سازشیں کرتے ہیں۔ قتل نفس اور جہاد بالسیف کے حکم سے پہلے مقاطعہ اور دشمنوں کو اقتصادی طور پر مفلوج کرنے کی یہ تدبیر اس لئے اختیار کی گئی تھی تاکہ اس سے ان کی جنگی صلاحیت ختم ہو جائے اور وہ اسلام کے مقابلہ میں آ کر کفر کی موت نہ مریں۔ گویا اس اقدام کا مقصد یہ تھا کہ ان کے اموال پر قبضہ کر کے ان کی جانوں کو بچایا جائے۔ کیونکہ اموال پر قبضہ ان کی جان لینے سے زیادہ بہتر تھا۔



علاوہ ازیں اس تدبیر میں یہ حکمت و مصلحت بھی تھی کہ کفار مکہ کے لئے غور و فکر کا ایک اور موقع فراہم کیا جائے تا کہ وہ ایمان کی نعمت سے سرفراز ہو کر ابدی نعمتوں کے مستحق بن سکیں اور عذاب اخروی سے نجات پا سکیں۔ لیکن جب اس تدبیر سے کفار و مشرکین کے عناد کی اصلاح نہ ہوئی تو ان کے شر و فساد سے زمین کو پاک کرنے کے لئے ﷲ تعالیٰ کی جانب سے جہاد بالسیف کا حکم بھیج دیا گیا اور اللہ تعالیٰ نے قریش کے تجارتی قافلہ کے بجائے ان کی عسکری تنظیم سے مسلمانوں کا مقابلہ کرا دیا۔ رسول اکرم صلی اﷲ علیہ وسلم کی ابتدائی تدبیر سے امت مسلمہ کو یہ ہدایت ضرور ملتی ہے کہ خاص قسم کے حالات میں جہاد بالسیف پر عمل نہ ہوسکے تو اس سے اقل درجہ کا اقدام یہ ہے کہ کفار محاربین سے نہ صرف اقتصادی بائیکاٹ کیا جائے بلکہ ان کے اموال پر قبضہ تک کیا جا سکتا ہے مگر ظاہر ہے کہ عام مسلمان نہ تو جہاد بالسیف پر قادر ہیں نہ ا نہیں اموال پر قبضہ کی اجازت ہے۔ اندریں صورت ان کے اختیار میں جو چیز ہے وہ یہ ہے کہ ان موذی کافروں سے ہر قسم کے تعلقات ختم کر کے ان کو معاشرہ سے جدا کر دیا جائے ۔



بدن انسانی کا جو حصہ اس درجہ گل سٹر جائے کہ اس کی وجہ سے تمام بدن کو نقصان کا خطرہ لاحق ہو اور جان خطرہ میں ہو تو اس ناسور کو جسم سے پیوستہ رکھنا دانش مندی نہیں ۔بلکہ اسے کاٹ دینا ہی عین مصلحت و حکمت ہے ۔تمام عقلاء اور حکماء و اطباء کا اسی پر عمل و اتفاق ہے اور پھر جب یہ موذی کفار مسلمانوں کا خون چوس چوس کر پل رہے ہوں اور طاقتور بن کر مسلمانوں ہی کو صفحہ ہستی سے مٹانے کی کوشش کر رہے ہوں تو ان سے خرید و فروخت اور لین دین میں مکمل مقاطعہ کرنا اسلام اور ملت اسلامیہ کے وجود و بقاء کے لئے ایک ناگزیر ملی فریضہ بن جاتا ہے ۔ آج بھی اس متمدن دنیا میں مقاطعہ یا اقتصادی ناکہ بندی کو ایک اہم دفاعی مورچہ سمجھا جاتا ہے اور اس کو سیاسی حربہ کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے ۔مگر مسلمانوں کے لئے یہ کوئی سیاسی حربہ نہیں۔ بلکہ اسوہ نبی ،سنت رسول اور ایک مقدس مذہبی فریضہ ہے۔ اسلام کی غیرت ایک لمحہ کے لئے یہ برداشت نہیں کرتی کہ اسلام اور ملت اسلامیہ کے دشمنوں سے کسی نوعیت کا کوئی تعلق اور رابطہ باقی رکھا جائے ۔



قرآن کریم

اب ہم آیات قرآنیہ ،احادیث نبویہ اور فقہاء امت اسلامیہ کے وہ نقول پیش کرتے ہیں جن سے اس مقاطعہ کا حکم واضح ہوتا ہے ۔



۔ ’’ان إذا سمعتم اٰیٰت اﷲ یکفربھا ویستھزأ بھافلا تقعدوامعھم۔‘‘ (سورۃ نساء :آیت 140)



ترجمہ ’’اور جب سنو تم کہ ﷲ کی آیتوں کا انکار کیا جا رہا ہے اور ان کا مذاق اُڑایا جا رہا ہے تو ان کے ساتھ نشست و برخاست ترک کر دو۔‘‘



۔ ’’وإذا رأیت الذین یخوضون فی اٰیٰتنافاعرض عنھم ۔‘‘ (سورۃ انعام ، آیت8 6)



ترجمہ ’’اور جب تم دیکھو ان لوگوں کو جو مذاق اُڑاتے ہیں ہماری آیتوں کا تو ان سے کنارہ کشی اختیار کر لو۔‘‘



اس آیت کے ذیل میں حافظ الحدیث امام ابوبکر الجصاص الرازی لکھتے ہیں کہ : ’’وھذایدل علی أن علیناترک مجالسۃ الملحدین وسائر الکفار عند إظھارھم الکفر والشرک ومالا یجوز علی اللّٰہ تعالیٰ إذا لم یمکنّا إنکارہ… الخ۔



ترجمہ ’’یہ آیت اس امر پر دلالت کرتی ہے کہ ہم (مسلمانوں) پر ضروری ہے کہ ملاحدہ اور سارے کافروں سے ان کے کفرو شرک، اور اللہ تعالیٰ پر ناجائز باتیں کہنے کی روک نہ کر سکیں تو ان کے ساتھ نشست و برخاست ترک کردیں۔‘‘



ترجمہ: ’’ا ے ایمان والو!تم یہودو نصاری کو اپنا دوست مت بنائو‘‘۔



امام ابو بکر الجصاص لکھتے ہیں کہ : ’’وفی ہذہ الآیۃ دلالۃ علی أن الکافر لا یکون ولیاً للمسلم لا فی التصرف ولا فی النصرۃ۔ ویدلّ علی وجوب البراء ۃ من الکفار والعداوۃ لھم، لأن الولایۃ ضد العداوۃ، فاذا أمرنا بمعاداۃ الیھود والنصاری لکفرھم فغیرھم من الکفار بمنزلتھم ویدلّ علی أن الکفر کلہ ملّۃ واحدۃ۔ (احکام القرآن 2،444)



ترجمہ: اس آیت میں اس امر پر دلالت ہے کہ کافر مسلمانوں کا ولی(دوست) نہیں ہو سکتا۔ نہ تو معاملات میں اور نہ امداد و تعاون میں۔ اور اس سے یہ امر بھی واضح ہوتا ہے کہ کافروں سے برأت اختیار کرنا اور ان سے عداوت رکھنا واجب ہے کیونکہ ولایت عداوت کی ضد ہے اور جب ہم کو یہودو نصاریٰ سے ان کے کفر کی وجہ سے عداوت رکھنے کا حکم ہے۔ دوسرے کافر بھی انہیں کے حکم میں ہیں سارے کافر ایک ہی ملت ہیں۔



۔ سورۃ ممتحنہ کا موضوع ہی کفار سے قطع تعلق کی تاکید ہے۔ اس سورۃ میں بہت سختی کے ساتھ کفار کی دوستی اور تعلق سے ممانعت کی گئی ہے۔ اگرچہ رشتہ دار قرابت دار ہوں اور فرمایا کہ قیامت کے دن تمہارے یہ رشتے کام نہیں آئیں گے۔ اور یہ کہ جو لوگ آئندہ کفار سے دوستی اور تعلق رکھیں گے، وہ راہ حق سے بھٹکے ہوئے اور ظالم شمار ہوں گے۔



۔ ’’لاتجد قوما یومنون باللّٰہ والیوم الاٰخر یوآدّون من حادّ اللّٰہ ورسولہ ولو کانوا ابآء ھم أوابناء ھم اواخوانھم او عشیرتھم۔ ‘‘



(سورۃ مجادلہ، آیت22)



ترجمہ: ’’تم نہ پائو گے کسی قوم کو جو یقین رکھتے ہوں۔ اللہ پر اور آخرت پر کہ دوستی کریں ایسوں سے جو مخالف ہیں اللہ اور اس کے رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کے۔ خواہ ان کے باپ ہوں، بیٹے ہوں، بھائی ہوں یا خاندان والے ہوں۔‘‘



آگے چل کر اس آیت کریمہ میں ان مسلمانوں کو جو باوجود قرابت داری کے محارب کافروں سے دوستانہ تعلقات ختم کر دیتے ہیں۔ سچا مومن کہا گیا ہے۔ انہیں جنت اور رضوان الٰہی کی بشارت سنا دی گئی ہے اور ان کو ’’حزب اللہ‘‘ کے لقب سے سرفراز فرمایا گیا ہے۔ جس سے واضح ہو جاتا ہے کہ خدا اور رسول صلی ﷲ علیہ وسلم کے دشمنوں سے دوستی رکھنا کسی مومن کا کام نہیں ہو سکتا۔



بطور مثال ان چند آیات کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ ورنہ بے شمار آیات کریمہ اس مضمون کی موجود ہ ہیں۔



احادیث نبویہ

اب چند احادیث نبویہ صلی اللہ علیہ وسلم ملاحظہ ہو جن سے قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ کا حکم واضح ہوتا ہے :



1۔ جامع ترمذی کی ایک حدیث میں سمرۃ ؓ بن جندب سے مروی ہے کہ حکم دیا گیا ہے کہ: ’’مشرکوں اور کافروں کے ساتھ ایک جگہ سکونت بھی اختیار نہ کریں۔ ورنہ مسلمان بھی کافروں جیسے ہوں گے۔‘‘(باب فی کراہیہ المقام بین اظہر المشرکین ، جلد 1صفحہ194)



2۔ نیز ترمذی کی ایک حدیث میں جو جریربن عبداللہ الجلبی ؓ سے مروی ہے رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ: ’’ أنابرئ من کل مسلم یقیم بین أظہر المشرکین۔‘‘ ترجمہ :یعنی آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اظہار برأت فرمایا ہر اس مسلمان سے جو محارب کافروں میں سکونت پذیر ہو۔‘‘ (حوالہ مزکورہ بالا)



3۔ صحیح بخاری کی ایک حدیث میں قبیلہ عکل اور عرنیہ کے آٹھ نو اشخاص کا ذکر ہے جو مرتد ہو گئے تھے۔ ان کے گرفتار ہونے کے بعد حضور اکرم صلی ﷲ علیہ وسلم نے حکم دیا کہ ان کے ہاتھ پائوں کاٹ دئیے جائیں اور ان کی آنکھوں میں گرم کر کے لوہے کی کیلیں پھیر دی جائیں اور ان کو مدینہ طیبہ کے کالے کالے پتھروں پر ڈال دیا جائے۔ چنانچہ ایسا ہی کیا گیا۔ یہ لوگ پانی مانگتے تھے لیکن پانی نہیں دیا جاتا تھا۔ صحیح بخاری کی روایت کے الفاظ ہیں:



’’یستسقون فلا یسقون‘‘اور ایک روایت میں یہ الفاظ ہیں کہ:’’حتی ان احدھم یکدم بفیہ الارض‘‘



ترجمہ: ’’وہ پیاس کے مارے زمین چاٹتے تھے۔۔۔۔۔۔ مگر انہیں پانی دینے کی اجازت نہ تھی۔‘‘



امام نوویؒ اس حدیث کے ذیل میں لکھتے ہیںکہ: ’’ان المحارب المرتد لا حرمۃ لہ فی سقی الماء ولا غیرہ، ویدل علیہ أن من لیس معہ ماء إلا لطہارتہ لیس لہ أن یسقیہ للمرتد ویتیمم، بل یستعملہ ولومات المرتد عطشاً۔‘‘(فتح الباری 1، صفحہ393)



ترجمہ: اس سے یہ معلوم ہوا کہ محارب مرتد کا پانی وغیرہ پلانے میں کوئی احترام نہیں۔ چنانچہ جس شخص کے پاس صرف وضو کے لئے پانی ہو تو اس کو اجازت نہیں ہے کہ پانی مرتد کو پلا کر تیمم کرے۔ بلکہ اس کے لئے حکم ہے کہ پانی مرتد کو نہ پلائے۔ اگرچہ وہ پیاس سے مر جائے بلکہ وضو کر کے نماز پڑھے۔‘‘



4۔ غزوئہ تبوک میں تین کبار صحابہ کعب بن مالک رضی ﷲ عنہ، ہلال بن امیہ رضی اﷲ عنہ ،واقفی بدری رضی ﷲ عنہ اور مرارہ بن ربیع رضی ﷲ عنہ ، بدری عمری رضی ﷲ عنہ کو غزوہ میں شریک نہ ہونے کی وجہ سے سخت سزا دی گئی۔ آسمانی فیصلہ ہوا کہ ان تینوں سے تعلقات ختم کر لئے جائیں۔ ان سے مکمل مقاطعہ کیا جائے۔ کوئی شخص ان سے سلام و کلام نہ کرے۔ حتیٰ کہ ان کی بیویوں کو بھی حکم دیا گیا کہ وہ بھی ان سے علیحدہ ہو جائیں اور ان کے لئے کھانا بھی نہ پکائیں۔ یہ حضرات روتے روتے نڈھال ہو گئے اور حق تعالیٰ کی وسیع زمین ان پر تنگ ہو گئی۔ وحی قرآنی کے الفاظ ملاحظہ ہوں:’’وعلی الثلٰثۃ الذین خلفوا ط حتی اذا ضاقت علیھم الارض بما رحبت وضاقت علیھم انفسھم وظنواان لا ملجأمن اللّٰہ الا الیہ۔(سورۃ توبۃ:آیت118) ترجمہ:’’اور ان تینوں پر بھی (توجہ فرمائی ) جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا۔ یہاں تک زمین ان پر باوجود اپنی فراخی کے تنگ ہو گئی اور وہ خود اپنی جانوں سے تنگ آ گئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی۔ بجز ا سی کی طرف۔‘‘



پورے پچاس دن تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ آخر کار اللہ تعالیٰ نے ان کی یہ توبہ قبول فرمائی اور معافی ہو گئی۔



قاضی ابوبکر بن العربی لکھتے ہیں کہ:’’وفیہ دلیل علی أنّ للإمام أن یعاقب المذنب بتحریم کلامہ علی الناس أدباًلہ وعلی تحریم أھلہ علیہ۔‘‘(احکام القرآن لا بن العربی جلد3 صفحہ114)ترجمہ:’’ اس قصہ میں اس امر کی دلیل ہے کہ امام کو حق حاصل ہے کہ کسی گنہگار کی تادیب کے لئے لوگوں کو اس سے بول چال کی ممانعت کر دے۔ اور ا س کی بیوی کو بھی اس کے لئے ممنوع ٹھہرا دے۔‘‘



حافظ ابن حجر ؒفتح الباری میں لکھتے ہیں کہ: ’’وفیہ ترک السلام علی من اذنب وجواز ھجرہ اکثر من ثلاث۔‘‘ ترجمہ: ’’اس سے ثابت ہوا کہ گنہگار کو سلام نہ کیا جائے اور یہ کہ اس سے قطع تعلق تین روز سے زیادہ بھی جائز ہے۔‘‘



بہرحال کعب بن مالک رضی ﷲ عنہ اور ان کے رفقاء کا یہ واقعہ قرآن کریم کی سورۃ توبہ میں مذکور ہے اور اس کی تفصیل صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور تمام صحاح ستہ میں موجود ہے۔



امام ابودائود نے اپنی کتاب سنن ابی دائود میں کتاب السنۃ کے عنوان کے تحت متعدد ابواب قائم کئے ہیں۔



الف۔ باب مجانبۃ اھل الاھواء وبغضھم! اھل اھواء باطل پرستوں سے کنارہ کشی کرنے اور بغض رکھنے کا بیان۔



ب۔ باب ترک السلام علی اھل الاھواء (اھل اھواء سے ترک سلام و کلام کا بیان)



سنن ابی دائود میں حدیث ہے کہ عمار رضی اﷲ عنہ بن یاسر نے ’’خلوق‘‘ (زعفران) لگایا تھا۔ آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے ان کو سلام کا جواب نہیں دیا۔ غور فرمائیے کہ معمولی خلاف سنت بات پر جب یہ سزا دی گئی تو ایک مرتد موذی اور کافر محارب سے بات چیت سلام و کلام اور لین دین کی اجازت کب ہو سکتی ہے؟



امام خطابی ’’معالم السنن جلد 4صفحہ 296 میں حدیث کعب کے سلسلے میں تصریح فرماتے ہیں کہ ’’مسلمانوں کے ساتھ بھی ترک تعلق اگر دین کی وجہ سے ہو تو بلا قید ایام کیا جا سکتا ہے۔ جب تک توبہ نہ کریں۔‘‘



5۔ مسند احمد و سنن ابی دائود میں ابن عمر رضی اﷲ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم نے فرمایا:’’القدریۃ مجوس ہذہ الامۃ، ان مرضوا فلا تعودوھم ، وان ماتوا فلا تشھدوھم۔‘‘



ترجمہ: ’’تقدیر کا انکار کرنے والے اس امت کے مجوسی ہیں۔ اگر بیمار ہوں تو عیادت نہ کرو اور اگر مر جائیں تو جنازہ پرنہ جائو۔‘‘



6۔ ایک اور حدیث میں ہے کہ: ’’لا تجالسوا اھل القدر ولا تفاتحوھم‘‘ ترجمہ: ’’منکرین تقدیر کے ساتھ نہ نشست و برخاست رکھو اور نہ ان سے گفتگو کرو۔‘‘



بہرحال یہ تو حضرت نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم کے ارشادات ہیں۔ عہد نبوت کے بعد عہد خلافت راشدہ میں بھی اسی طرز عمل کا ثبوت ملتا ہے۔ مانعین زکوٰۃ کے ساتھ صدیق اکبر رضی ﷲ عنہ کا اعلان جہاد کرنا بخاری و مسلم میں موجود ہے۔ مسیلمہ کذاب ، اسود عنسی، طلیحہ اسدی اور ان کے پیروئوں کے ساتھ جو سلوک کیا گیا اس سے حدیث و سیر کا معمولی طالب علم بھی واقف ہے۔ عہد فاروقی میں ایک شخص ضبیع عراقی قرآن کریم کی آیات کے ایسے معانی بیان کرنے لگا جن میں ھواء نفس کو دخل تھا اور ان سے مسلمانوں کے عقائد میں تشکیک کا راستہ کھلتا تھا۔ یہ شخص فوج میں تھا جب عراق سے مصر گیا اور حضرت عمرو بن عاص رضی اﷲ عنہ گورنر مصر کو اس کی اطلاع ہوئی تو انہوں نے اس کو حضرت عمر فاروق رضی ﷲ عنہ کے پاس مدینہ بھیجا اور صورت حال لکھی۔ حضرت عمررضی اﷲ عنہ نے نہ اس کا موقف سنا نہ دلائل۔ اس سے بحث و مباحثہ میں وقت ضائع کئے بغیر اس کا ’’علاج بالجرید‘‘ ضروری سمجھا۔ فوراً کھجور کی تازہ ترین شاخیں منگوائیں اور اپنے ہاتھ سے اس کے سر پر بے تحاشا مارنے لگے اتنا مارا کہ خون بہنے لگا۔ وہ چیخ اٹھا کہ ’’اے امیر المومنین آپ مجھے قتل ہی کرنا چاہتے ہیں تو مہربانی کیجئے۔ تلوار لے کر میرا قصہ پاک کر دیجئے اور اگر صرف میرے دماغ کا خناس نکالنا مقصود ہے تو آپ کو اطمینان دلاتا ہوں کہ اب وہ بھوت نکل چکا ہے۔‘‘ اس پر حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اسے چھوڑ دیا اور چند دن مدینہ رکھ کر واپس عراق بھیج دیا اور حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ کو لکھا کہ:’’ان لا یجالسہ احد من المسلمین‘‘ ترجمہ: ’’کوئی مسلمان اس کے پاس نہ بیٹھے۔‘‘



اس مقاطعہ سے اس شخص پر عرصہ حیات تنگ ہو گیا تو حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اﷲ عنہ نے حضرت عمر رضی اﷲ عنہ کو لکھا کہ اس کی حالت ٹھیک ہو گئی ہے۔ تب حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے لوگوں کو اس کے پاس بیٹھنے کی اجازت دی۔



7۔ سنن کبری البہیقی جلد9صفحہ85میں حضرت علی رضی ﷲ عنہ سے روایت ہے کہ:



’’امرنی رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم ان أغور ماء آبار بدر‘‘ ترجمہ: ’’جنگ بدر میں رسول اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم نے مجھے حکم فرمایا کہ بدر کے کنوئوں کا پانی خشک کر دوں۔‘‘ اور ایک روایت میں ہے کہ ’’ أن تغوّر المیاہ کلھا غیر ماء واحد فنلقی القوم علیہ‘‘ ترجمہ: ’’سوائے ایک کنوئیں کے جو بوقت جنگ ہمارے کام آئے گا باقی سب کنوئیں خشک کردئیے جائیں۔‘‘



8۔ صحیح بخاری جلد2 صفحہ1023میں ہے کہ حضرت علی کرم اللہ وجہہ کے پاس چند بددین زندیق لائے گئے تو آپ نے انہیں آگ میں جلا دیا۔ حضرت ابن عباس رضی اﷲ عنہ کو اس کی اطلاع پہنچی تو فرمایا۔’’اگر میں ہوتا تو انہیں جلاتا نہیں کیونکہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کے عذاب کی سزا مت دو بلکہ میں انہیں قتل کرتا ۔‘‘ کیونکہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’من بدل دینہ فاقتلوہ‘‘ ترجمہ: ’’جو شخص مرتد ہو جائے اسے قتل کر دو۔‘‘



9۔ صحیح بخاری، جلد1صفحہ423 میں صعب بن جثامہ رضی ﷲ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا کہ : ’’رات کی تاریکی میں مشرکین پر حملہ ہوتا ہے تو عورتیں اور بچے بھی زد میں آجاتے ہیں فرمایا وہ بھی انہی میں شامل ہیں۔‘‘







فقہ

اب فقہ کی چند تصریحات ملاحظہ ہوں جن سے قادیانیوں کے مکمل بائیکاٹ کا حکم واضح ہوتا ہے :



1۔ علامہ دردیر مالکی شرح کبیر میں باغیوں کے احکام میں لکھتے ہیں کہ: ترجمہ: ’’ان کا کھانا پانی بند کر دیا جائے ۔ الا یہ کہ ان میں عورتیں اور بچے ہوں۔‘‘(4،299)



2۔ کوئی قاتل اگر حرم مکہ میں پناہ گزین ہو جائے ۔اس سلسلہ میں ابوبکر الجصاص لکھتے ہیں کہ: ترجمہ: ’’امام ابو حنیفہ، ابو یوسف، محمد زفر اور حسن بن زیاد کا قول ہے کہ جب کوئی حرم سے باہر قتل کر کے حرم میں داخل ہو تو جب تک حرم میں ہے اس سے قصاص نہیں لیا جائے گا مگر نہ اس کے ہاتھ کوئی چیز فروخت کی جائے۔ نہ اس کو کھانا دیا جائے یہاں تک کہ وہ حرم سے نکلنے پر مجبور ہو جائے۔‘‘ احکام القرآن2،21



3۔ درمختار میں ہے کہ: ترجمہ: ’’ناصحی نے فتویٰ دیا کہ ہر موذی کا قتل واجب ہے اور ’’شرح وہبانیہ‘‘ میں ہے کہ تعزیر یوں بھی ہو سکتی ہے کہ شہر بدر کر دیا جائے اور ان کے مکان کا گھیرائو کیا جائے۔ انہیں مکان سے نکال باہر کیا جائے اور مکان ڈھا دیا جائے۔‘‘



4۔ ابن عابدین الشامی در مختار ، جلد3صفحہ272میں لکھتے ہیں کہ: ترجمہ: ’’احکام السیاسۃ میں ’’المنتقی‘‘ سے نقل کیا ہے کہ جب کسی کے گھر سے گانے بجانے کی آواز سنائی دے تو اس میں داخل ہو جائو کیونکہ جب اس نے یہ آواز سنائی تو اپنے گھر کی حرمت کو خود ساقط کر دیا ہے اور بزازیہ کے کتاب الحدود و نہایہ کے باب الغصب اور درایہ کے کتاب الجنایات میں لکھا ہے کہ صدر الشہید نے ہمارے اصحاب سے نقل کیاہے کہ جو شخص فسق و بدکاری اور مختلف قسم کے فساد کا عادی ہوا ایسے شخص پر اس کا مکان گرا دیا جائے۔ حتیٰ کہ مفسدوں کے گھر میں گھس جانے میں بھی مضائقہ نہیں۔ حضرت عمرؓ ایک نوحہ گر عورت کے گھر میں گھس آئے اور ا س کے ایسا درّا مارا کہ اس کے سر سے چادر اتر گئی اور اپنے طرز عمل کی وضاحت کرتے ہوئے فرمایا کہ حرام میں مشغول ہونے کے بعد اس کی کوئی حرمت نہیں رہی اور یہ لونڈیوں کی صف میں شامل ہو گئی۔ حضرت عمرؓ سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے ایک شرابی کے مکان کو آگ لگا دی تھی۔ صفار زاہد کہتے ہیں کہ فاسق کا مکان گرا دینے کا حکم ہے۔ ‘‘



5۔ ملا علی قاری مرقاۃ شرح مشکوٰۃ، جلد4، صفحہ107، باب التعزیر میں لکھتے ہیں کہ: ترجمہ: ’’اور یہ کہ اس امر کی تصریح ہے کہ مارنا ایسی تعزیر ہے جس کا انسان اختیار رکھتا ہے خواہ محتسب نہ ہو۔ ’’المنتقٰی ‘‘ میں اس کی تصریح کی گئی ۔‘‘یاد رہے کہ اس قسم کے مقاطعہ کا تعلق درحقیقت بغض فی اللہ سے ہے جس کو حضرت محمد رسو ل اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے احب الاعمال الی اللّہ فرمایا ہے۔ (کما فی روایت ابی ذر فی کتاب السنۃ عند ابی داؤد)



بغض فی اللہ کے ذیل میںا مام غزالی ؒ احیاء العلوم ، جلد2صفحہ167میں بطور کلیہ لکھتے ہیں کہ: ترجمہ: ’’اول کافر، پس اگر کافر حربی ہو تو اس بات کا مستحق ہے کہ قتل کیا جائے۔ یا غلام بنا لیا جائے اور یہ ذلت و اہانت کی آخری حد ہے۔ دوم صاحب بدعت جو اپنی بدعت کی دعوت دیتا ہے۔ پس اگر بدعت حد کفر تک پہنچی ہوئی ہو تو اس کی حالت کافر ذمی سے بھی سخت تر ہے کیونکہ نہ اس سے جزیہ لیا جا سکتا ہے اور نہ ا س کو ذمی کی حیثیت دی جا سکتی ہے اور اگر بدعت ایسی نہیں جس کی وجہ سے اس کو کافر قرار دیا جائے تو عند اللہ اس کا معاملہ کافر سے لا محالہ اخف (ہلکا ) ہے ۔ مگر کافر کی بہ نسبت اس پر نکیر زیادہ کی جائے گی۔ کیونکہ کافر کا شر متعدی نہیں اس لئے کہ مسلمان کافر کو ٹھیٹ کافر سمجھتے ہیں۔ لہٰذا اس کے قول کو لائق التفات ہی نہیں سمجھیں گے ……الخ۔



ردالمختار جلد3صفحہ298میں قرامطہ کے بارے میں لکھا ہے کہ: ترجمہ: ’’مذاہب اربعہ سے منقول ہے کہ انہیں اسلامی ممالک میں ٹھہرانا جائز نہیں۔ نہ جزیہ لے کہ نہ بغیر جزیہ کے۔ نہ ان سے شادی بیاہ جائز ہے نہ ہی ان کا ذبیحہ حلال ہے… حاصل یہ ہے کہ ان پر زندیق منافق اور ملحد کا مفہوم پوری طرح صادق آتا ہے۔ اور ظاہر ہے کہ اس خبیث عقیدہ کے باوجود ان کا کلمہ پڑھنا انہیں مرتد کا حکم نہیں دیتا۔ کیونکہ وہ تصدیق نہیں رکھتے اور ان کا ظاہری اسلام غیر معتبر ہے۔ جب تک کہ ان تمام امور سے جو دین اسلام کے خلاف ہیں، برأت کا اظہار نہ کریں۔ کیونکہ وہ اسلام کا دعویٰ اور شہادتین کا اقرار تو پہلے سے کرتے ہیں (مگر اس کے باوجود پکے بے ایمان اور کافر ہیں) اور ایسے لوگ گرفت میں آ جائیں تو ان کی توبہ اصلاً قبول نہیں۔‘‘



فقہ حنفی کی معتبر کتاب معین الحکام بسلسلہ تعزیر ایک مستقل فصل میں لکھا ہے کہ: ترجمہ: ’’اور تعزیر کسی معین فعل یا معین قول کے ساتھ مختص نہیں۔ چنانچہ رسول اللہ صلی اﷲ علیہ وسلم نے ان تین حضرات کو (جو غزوئہ تبوک میں پیچھے رہ گئے تھے اور ) جن کا واقعہ اللہ نے قرآن عظیم میں ذکر فرمایا ہے۔ مقاطعہ کی سزا دی تھی۔ چنانچہ پچاس دن تک ان سے مقاطعہ رہا۔ کوئی شخص ان سے بات تک نہیں کر سکتا تھا۔ ان کا مشہور قصہ صحاح ستہ میں موجود ہے۔ نیز رسو ل اللہ صلی ﷲ علیہ وسلم نے جلا وطنی کی سزا بھی دی۔ چنانچہ مخنثوں کو مدینہ سے نکالنے کا حکم دیا اور انہیں شہر بدر کر دیا۔ اسی طرح آپ صلی ﷲ علیہ وسلم کے بعد صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم نے بھی مختلف تعزیزات جاری کیں۔ ہم ان میں سے بعض کو جو احادیث کی کتابوں میں وارد ہیں یہاں ذکر کرتے ہیں۔ ان میں سے بعض کے ہمارے اصحاب قائل ہیں اور بعض پر دیگر ائمہ نے عمل کیا۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے ضبیع نامی ایک شخص کو مقاطعہ کی سزا دی ۔ یہ شخص ’’الذاریات‘‘ وغیرہ کی تفسیر پوچھا کرتا تھا۔ اور لوگوں کو فہمائش کیا کرتا تھا کہ وہ مشکلات قرآن میں تفقہ پیدا کریں۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے اس کی سخت پٹائی کی اور اسے بصرہ یا کوفہ جلا وطن کر دیا اور اس سے مقاطعہ کا حکم فرمایا۔ چنانچہ کوئی شخص اس سے بات ۔۔۔۔تک نہیں کرتا تھا۔ یہاں تک کہ وہ تائب ہوا اور وہاں کے گورنر نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کو اس کے تائب ہونے کی خبر لکھ بھیجی۔ تب آپ نے لوگوں کو اجازت دی کہ اس سے بات چیت کر سکتے ہیں۔ حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے نصر بن حجاج کا سر منڈوا کر اسے مدینہ سے نکال دیا تھا جب کہ عورتوں نے اشعار میں اس کی تشبیب شروع کر دی تھی اور فتنہ کا اندیشہ لاحق ہو گیا تھا۔ آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے قبیلہ عرنیہ کے افراد کو جو سزا دی (اس کا قصہ صحاح میں موجود ہے ) حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے ایک ایسے شخص کے بارے میں جو بدفعلی کراتا تھا صحابہ سے مشورہ کیا۔ صحابہ رضی ﷲ عنہم نے مشورہ دیا کہ اسے آگ میں جلا دیا جائے ۔حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے خالد بن ولید رضی ﷲ عنہ کو یہ حکم لکھ بھیجا۔ بعد ازاں حضرت عبداﷲ بن زبیر رضی ﷲ عنہ اور ہشام بن عبدالملک ؒنے بھی اپنے اپنے دور خلافت میں اس قماش کے لوگوں کو آگ میں ڈالا۔ حضرت ابوبکر رضی ﷲ عنہ نے مرتدین کی ایک جماعت کو آگ میں جلایا۔ ا ٓنحضرت صلی اﷲ علیہ وسلم نے شراب کے مٹکے توڑنے اور اس کے مشکیزے پھاڑ دینے کا حکم فرمایا۔ آنحضرت صلی ﷲ علیہ وسلم نے خیبر کے دن ان ہانڈیوں کو توڑنے کا حکم فرمایا جن میں گدھوں کا گوشت پکایا گیا تھا۔ پھر صحابہ کرامؓ نے آپ صلی ﷲ علیہ وسلم سے اجازت چاہی کہ انہیں دھو کر استعمال کر لیا جائے تو آپ صلی ﷲ علیہ وسلم نے اجازت دے دی ۔یہ واقعہ دونوں باتوں کے جواز پر دلالت کرتا ہے ۔کیونکہ ہانڈیوں کو توڑ ڈالنے کی سزا واجب نہیں تھی۔ حضرت عمر رضی اﷲ عنہ نے اس مکان کو جلا دینے کا حکم فرمایا جس میں شراب کی خرید و فروخت ہوتی تھی ۔ حضر ت سعد بن ابی وقاص رضی ﷲ عنہ نے جب رعیت سے الگ تھلگ اپنے گھر ہی میں فیصلہ کرنا شروع کیاـ تو حضر ت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کا مکا ن جلا ڈالا ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اپنے عمال کے مال کا ایک حصہ ضبط کر کے مسلمانو ں میں تقسیم کر د یا۔ ا یک شخص نے حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کی مہر پر جعلی مہر بنوا لی تھی اور بیت المال سے کوئی چیز لے لی تھی ۔حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے اس کے سو درے لگائے۔ دوسرے دن پھر سو درے لگائے اور تیسرے دن بھی سو درے لگائے ۔امام ملکؒ نے اسی کو لیا ہے ۔چنانچہ ان کا مسلک ہے کہ تعزیر کی مقدار ’’حد‘‘ سے زائد بھی ہو سکتی ہے ۔حضرت عمر رضی ﷲ عنہ نے جب ایک سائل ایسا دیکھا جس کے پاس قدر کفایت سے زائد غلہ موجود تھا چھین کر صدقہ کے اونٹوں کو کھلا دیا۔ ان کے علاوہ اس نوعیت کے اور بھی بہت سے واقعات ہیں اور صحیح اور معروف فیصلے ہیں ۔اور شرح سیر کبیر ،جلد۳ص۷۵میں ہے ۔اور کوئی مضائقہ نہیں کہ مسلمان کافروں کے ہاتھ غلہ اور کپڑا وغیرہ فروخت کریں ۔مگر جنگی سامان اور گھوڑے اور قیدی فروخت کرنے کی اجازت نہیں ۔ خواہ وہ امن لے کر ان کے پاس آئے ہوں یا بغیر امان کے۔ کیونکہ ان چیزوں کے ذریعہ مسلمانوں کے مقابلے میں ان کو جنگی قوت حاصل ہو گی۔ اور مسلمانوں کے لئے ایسی کوئی چیز حلال نہیں جو مسلمانوں کے مقابلہ میں کافروں کو تقویت پہنچانے کا سبب بنے اور یہ علت دیگر سامان میں نہیں پائی جاتی ۔پھر یہ حکم جب ہے جبکہ مسلمانوں نے ان کے کسی قلعہ کا محاصرہ نہ کیا ہوا ہو۔ لیکن جب اُنہوں نے ان کے کسی قلعہ کا محاصرہ کیا ہوا ہو تو ان کے لئے مناسب نہیں کہ اہل قلعہ کے ہاتھ غلہ یا پانی یا کوئی ایسی چیز فروخت کریں جو ان کے قلعہ بند رہنے میں ممد و معاون ثابت ہو۔ کیونکہ مسلمانوں نے ان کا محاصرہ اسی لئے تو کیا ہے کہ ان کا رسد اور پانی ختم ہو جائے ۔اور وہ اپنے کو مسلمانوں کے سپرد کر دیں اور ﷲ تعالیٰ کے حکم پر باہر نکل آئیں ۔پس ان کے ہاتھ غلہ وغیرہ بیچنا ان کے قلعہ بند رہنے میں تقویت کا موجب ہو گا۔ بخلاف گزشتہ بالا صورت کے کیونکہ اہل حرب اپنے ملک میں ایسی چیزیں حاصل کر سکتے ہیں جن کے ذریعہ وہاں قیام پذیر رہ سکیں ۔انہیں مسلمانوں سے خریدنے کی ضرورت نہیں لیکن جو کافر کہ قلعہ بند ہوں اور مسلمانوں نے ان کا محاصرہ کر رکھا ہو وہ مسلمانوں کے کسی فرد سے ضروریات زندگی نہیں خرید سکتے ۔ لہٰذا کسی بھی مسلمان کو حلال نہیں کہ ان کے ہاتھ کسی قسم کی کوئی چیز فروخت کرے۔ جو شخص ایسی حرکت کرے اور امام کو اس کا علم ہو جائے تو امام اسے تادیب اور سرزنش کرے ۔کیونکہ اس نے غیر حلال فعل کا ارتکاب کیا ہے ۔



مذکورہ بالا نصوص اور فقہاء اسلام کی تصریحات سے حسب ذیل اصول و نتائج منقع ہو کر سامنے آ جاتے ہیں



1 ...... کفار محاربین سے دوستانہ تعلقات ناجائز اور حرام ہیں جو شخص ان سے ایسے روابط رکھے وہ گمراہ اور ظالم اور مستحق عذاب الیم ہے ۔



2 ...... جو کافر مسلمانوں کے دین کا مذاق اُڑاتے ہیں۔ ان کے ساتھ معاشرتی تعلقات نشست و برخاست وغیرہ بھی حرام ہے ۔



3 ...... جو کافر مسلمانوں سے برسر پیکار ہوں ۔ان کے محلے میں ان کے ساتھ رہنا بھی ناجائز ہے ۔



4 ...... مرتد کو سخت سے سخت سزا دینا ضروری ہے ۔اس کی کوئی انسانی حرمت نہیں ۔یہاں تک کہ اگر پیاس سے جان بلب ہو کر تڑپ رہا ہو تب بھی اسے پانی نہ پلایا جائے ۔



5 ......جو کافر مرتد اور باغی مسلمانوں کے خلاف ریشہ دواینوں میں مصروف ہوں ۔ان سے خرید و فروخت اور لین دین ناجائز ہے ۔جبکہ اس سے ان کو تقویت حاصل ہوتی ہو۔ بلکہ ان کی اقتصادی ناکہ بندی کر کے ان کی جارحانہ قوت کو مفلوج کر دینا واجب ہے ۔



6 ......مفسدوں سے اقتصادی مقاطعہ کرنا ظلم نہیں۔ بلکہ شریعت اسلامیہ کا اہم ترین حکم اور اسوۂ رسول صلی ﷲ علیہ وسلم ہے۔



7 ...... اقتصادی اور معاشرتی مقاطعہ کے علاوہ مرتدوں ،موذیوں اور مفسدوں کو یہ سزائیں بھی دی جا سکتی ہیں ۔قتل کرنا، شہر بدر کرنا، ان کے گھروں کو ویران کرنا، ان پر ہجوم کرنا وغیرہ ۔



8 ......اگر محارب کا فروں اور مفسدوں کے خلاف کاروائی کرتے ہوئے ان کی عورتیں اور بچے بھی تبعاً اس کی زد میں آ جائیں تو اس کی پروا نہیں کی جائے گی۔ ہاں صالتہً عورتوں اور بچوں پر ہاتھ اُٹھانا جائز نہیں ۔



9 ...... ان لوگوں کے خلاف مذکورہ بالا اقدامات کرنا دراصل اسلامی حکومت کا فرض ہے لیکن اگر حکومت اس میں کوتاہی کرے تو خود مسلمان بھی ایسے اقدامات کر سکتے ہیں جو ان کے دائرہ اختیار کے اندر ہوں ۔مگر انہیں کسی ایسے اقدام کی اجازت نہیں جس سے ملکی امن میں خلل و فساد کا اندیشہ ہو۔



10 ...... مکمل مقاطعہ صرف کافروں اور مفسدوں سے ہی جائز نہیں بلکہ کسی سنگین نوعیت کے معاملہ میں ایک مسلمان کو بھی یہ سزا دی جا سکتی ہے ۔



11 ...... زندیق اور ملحد جو بظاہر اسلام کا کلمہ پڑھتا ہو مگر اندرونی طور پر خبیث عقائد رکھتا ہو اور غلط تاویلات کے ذریعے اسلامی نصوص کو اپنے عقائد خبیثہ پر چسپاں کرتا ہو۔ اس کی حالت کافر اور مرتد سے بھی بدتر ہے کہ کافر اور مرتد کی توبہ بالا تفاق قابل قبول ہے۔ مگر بقول شامی زندیق کا نہ اسلام معتبر ہے نہ کلمہ، نہ اس کی توبہ قابل التفات ہے ۔ الا یہ کہ وہ اپنے تمام عقائد خبیثہ سے برات کا اعلان کرے ۔



ان اصول کی روشنی میں زیر بحث فرد یا جماعت کی حیثیت اور ان سے اقتصادی و معاشی اور معاشرتی و سیاسی مقاطعہ یا مکمل سوشل بائیکاٹ کا شرعی حکم بالکل واضح ہو جاتا ہے۔ وﷲ تعالی اعلم!



کتبہ : ولی حسن ٹونکی غفرﷲ لہٗ



(سابق مفتی اعظم پاکستان)



دارالافتاء مدرسہ عربیہ اسلامیہ نیو ٹاؤن کراچی






There are no replies made for this post yet.
Back To Top