قادیانیوں سے بائیکاٹ نہ کرنے کا نتیجہ  Consequences of not boycotting Qadianis اسلام کے خلاف بہت سے فتنے پیدا ہوئیے جن میں سب سے خطرناک فتنہ قادیانیت ہے۔ قادیانی؍ مرزائی دن رات مسلمانوں کا ایمان لوٹنے کے لئے باقاعدہ منصوبہ بندی اور نظم کے ساتھ کام کر رہے ہیں۔ پوری دنیا میں دھوکہ دہی ، دجل و فریب سے کام لے کر مسلمانوں کو مرتد بنا رہے ہیں۔ ان کی ارتدادی سرگرمیاں اس خطے کے علاوہ یورپ ، امریکہ ، کینیڈا، افریقہ تک پھیلی ہوئی ہیں۔  مسلمانوں کے تمام مکاتب فکر کا متفقہ فیصلہ ہے کہ قادیانیوں ؍ مرزا ئیوں سے مکمل بائیکاٹ کیا جائے۔ مگر افسوس !مسلمان اس فیصلے کی خلاف ورزی کر کے قادیانیوں ؍ مرزا ئیوں سے رابطے اور تعلقات استوار کر لیتے ہیں اور بہت سے سادہ لوح مسلمان ان کے پھیلائیے ہوئیے ارتدادی جال میں پھنس کر اپنا ایمان کھو بیٹھتے ہیں۔  یہ ہماری سستی ہے کہ اکثر مساجد ، مدارس ، دینی رسائل اور دینی اجتماعات میں مسلمانوں کو قرآن و حدیث کے واضح دلائل سے عقیدہ ختم نبوت اور رد قادیانیت کے موضوعات پر آگاہ نہیں کیا جاتا، جس وجہ سے دینی حلقوں کے لوگ بھی قادیانیوں کے ہاتھوں ان کا شکار ہو جاتے ہیں۔  قادیانیوں ؍ مرزائیوں کی لاہوری جماعت کے مرکزی دفتر احمد بلاک گارڈن ٹاؤن لاہور کے تبلیغی شعبہ میں ملازمت کرنے والا جوان ارشد فیصل آباد کے مصروف دینی مدرسہ کا طالب رہا ہے مگر قادیانی ہو گیا۔  محمد جمیل اس وقت قادیانیوں کے لندن کے مرکزی دفتر میں مربی کی تربیت لے رہا ہے۔ یہ پہلے مسلمان تھا اور دو بڑی دینی جماعتوں میں شامل رہا اور بھر پور حصہ لیتا رہا ہے۔  ملک کی معروف تنظیم کے سربراہ کا دیوانہ ایک نوجوان جو لاہور میں ان کے باڈی گارڈ کی حیثیت سے خدمات سر انجام دیتا رہا ہے صرف قادیانیوں سے تعلقات کی وجہ سے قادیانی ہو گیا۔  یہاں یہ بات بھی یاد رکھنی ضروری ہے کہ قانونی طور پر کوئی قادیانی کسی مسلمان کو تبلیغ نہیں کر سکتا۔ ایسے قادیانی کے خلاف آپ قانون کو حرکت میں لا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے باوجود مسلمانوں کی سرد مِہری اور غفلت کی وجہ سے قادیانی ہر سطح اور ہر علاقے میں جہنم کا ایندھن تلاش کر رہے ہیں۔ جبکہ کوئی مسلمان اپنے سے سینیئر یا جونئیر کسی قادیانی کو دعوت اسلام دیتا ہے تو اس کا جینا مشکل ہو جاتا ہے ،چنانچہ بیگم کوٹ کے شبیر حسین جو لاہور شیخوپورہ روڈ پر فرانس کی ایک میڈیسن کمپنی میں ملازم ہیں ان کا افسر قادیانی ہے۔ شبیر نے اسے دعوت اسلام دی تو فوراً اسے فیکٹری کی طرف سے نوٹس ملا کہ تم ملازمت کرنا چاہتے ہو یا تبلیغ۔ اس واقعے کو بھی مد نظر رکھیں اور ذیل میں دئیے گے واقعے بھی پڑھیں۔ قادیانیوں کی ارتدادی سرگرمیوں کے چند محاذ یہ ہیں: اسلام کا لبادہ اوڑھ کر تبلیغ : قادیانی بیرون ممالک میں مسلمانوں کے روپ میں جا کر لوگوں کو گمراہ کرتے ہیں ۔ افریقی ممالک میں قادیانیوں نے مسلمانوں کو اس دلیل سے دھوکہ دیا کہ ربوہ قرآن میں حضرت عیسیٰ علیہ اسلام کے جائے پیدائش کے لئے استعمال ہوا ہے اور ہم ربوہ سے آئیے ہیں، مسیح علیہ الصلوٰۃ والسلام کی دعوت لے کر۔ دیکھو پاکستان کے نقشے پر ربوہ شہر موجود ہے اور اسی سے کئی لا علم مسلمانوں کو فریب سے قادیانی بنا لیا۔  مغربی افریقہ میں ’’مالی ‘‘کے نامور مذہبی رہنما شیخ عمر کانتے کا بیان وہاں کے احوال سمجھنے کے لئے کافی ہے ۔شیخ عمر کانتے فرماتے ہیں: ’’ہمیں یہی باور کروایا گیا کہ دین محمدی اور دین احمدی (قادیانیت ) ایک ہی ہے۔ قادیانی تنظیم کے لوگوں نے یہاں آ کر ہم کو دھوکہ دیا کہ ہم مسلمان ہیں اور احمدی نام تعارف کے لئے ہے۔ ہم سڑکیں بنائیں گے، گھر بنائیں گے ، تمام سہولتیں دیں گے ۔ اس وجہ سے لوگوں نے قبول کیا کہ ایمان بھی محفوظ اور سہولتیں بھی مل رہی ہیں۔ اب ہم پر واضح ہوا ہے کہ عقیدہ ختم نبوت اسلام کا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے ۔اور مرزا غلام احمد قادیانی نے نبوت کا دعوی کیا، اپنے آپ کو رسالت کے منصب پر فائز کیا، اس کے پیرو کار اس کو نبی اور پیغمبر کی حیثیت سے جانتے اور تسلیم کرتے ہیں۔  قادیانیت کا دین اسلام سے کوئی تعلق نہیں اور دین احمدی کا نام ایک کھلا دھوکہ ہے … میں نے قادیانیت سے توبہ کی اور میری غلط فہمی دور ہو ئی۔ میں اپنے چالیس ہزار پیروکاروں کے ہمراہ قادیانیت سے تائب ہوتا ہوں اب اس علاقے میں قادیانیت کی تبلیغ کی اجازت نہ ہو گی۔ کسی قادیانی کو یہ جرات نہ ہو گی کہ وہ لوگوں کو گمراہ کر سکے۔ اب حکومت ’’مالی ‘‘نے قادیانیوں کی طرف سے دی گئی رجسٹریشن کی درخواست کو نہ صرف مسترد کر دیا بلکہ آئندہ ان کی تبلیغی سرگرمیوں پر پابندی عائد کر دی ۔اور وہ چار افراد جو اپنے آپ کو مرزا طاہر کا نمائندہ کہتے تھے ان کی گرفتاری کے احکامات جاری کر دئیے ہیں۔ اس طرح عالمی مجلس تحفظ ختم نبوت کی کوششوں سے وہ چالیس ہزار افراد جو لا علمی کی بنا پر قادیانیت کی گمراہی میں چلے گئے الحمد للہ دوبارہ زندہ اسلام میں داخل ہو گئے ہیں اور انہوں نے دین اسلام کے واضح ہونے کے بعد تمام مفادات کو قربان کر کے دین اسلام کو ترجیح دی ۔  اداروں اور فیکٹریوں میں طریقہ واردات :  قادیانی اپنے اداروں ، فیکٹریوں میں غریب مسلمانوں کو ملازمت دے کر تبلیغ کرتے ہیں اور ان میں سے کچھ لوگوں کا ایمان لوٹ لیا جاتا ہے۔ شیزان فیکٹری ، شاہنواز لمیٹڈ ، تاج شوگر ملز، پاکستان چپ بورڈ لمیٹڈ جہلم ، OCS ، ذائقہ گھی اور اکثر قادیانی اداروں کے ملازمین ان کے دجل و فریب میں آ کر مراعات اور رہائشں کی لالچ میں گمراہ ہو جاتے ہیں ۔ لاہور میں الفضل روم کولر ٹاؤن شپ والے مسلمان مزدوروں اور کاریگروں کو اپنے ادارے میں ڈبل تنخواہ دے کر ملازم رکھتے ہیں۔ کچھ ماہ کے بعد جب ان ملازمین کے گھریلو اخراجات ڈبل تنخواہ کے حساب سے ایڈجسٹ ہو جاتے ہیں تو ان کو فتنہ قادیانیت کی دعوت شروع کر دی جاتی ہے ۔جو لوگ دعوت قبول نہیں کرتے انہیں نوکری سے نکال دیا جاتا ہے اور اسے نئی نوکری اس تنخواہ کے مطابق کہیں اور مل نہیں سکتی۔ اس ادارے میں ہر سال 5 سے 8 خاندان قادیانی ہو جاتے ہیں۔  یونیورسل سٹیبلائزر، عابد مارکیٹ (لاہور ) والوں نے اپنے پڑوسی نوجوان کو قادیانی کر لیا مگر شاداب کالونی کے نوجوان نے مرکز سراجیہ سے رابطہ کیا اور کوششوں سے الحمد للہ نوجوان دوبارہ مسلمان ہو گیا۔  آصف بلاک اقبال ٹاؤن میں کچھ عرصہ پہلے 5،7گھر قادیانیوں کے تھے۔ اب وہاں 40 کے قریب قادیانیوں کے گھر آباد ہو چکے ہیں ، اور ارد گرد کے مسلمانوں کے لئے انتہائی خطرناک ہیں۔ اس بلاک میں ایک مشہور حکیم صاحب نے بتایا کہ ہمارے یہاں کا ایک مسلمان نوجوان ویزے کے لالچ میں قادیانی ہو کر باہر جانا چاہ رہا تھا، مگر میں نے اسے مشورہ دیا کہ وہ بیعت فارم بھر کر باہر چلا جائے مگر دل سے مسلمان ہی رہے اور وہ نوجوان ایسا کر کے باہر چلا گیا۔ انا للہ و انا الیہ راجعون۔ گویا حکیم صاحب نے اپنے ہاتھوں سے اس کا ایمان ضائع کر دیا۔  رشتوں کے جھانسے میں قادیانیت کی تبلیغ: فرید احمد پراچہ سابق ایم این اے کے بھائی طارق پراچہ صاحب کی تین جوان بیٹیاں اور ایک جوان بیٹا ہے۔ ان کی بیوی ظاہراً ساری زندگی مسلمان بن کر ان کے ساتھ رہی۔ جب تمام بچے کالج جانے لگے تو ایک دن اس نے بتایا کہ وہ حقیقت میں قادیانی تھی اور اس نے سب بچوں کو قادیانی بنا دیا ہے اور طارق پراچہ صاحب کو بھی دعوت دی کہ آپ قادیانی ہو جائیں۔ طارق پراچہ صاحب نے قادیانیت پر لعنت بھیجی اور بیوی بچوں کو چھوڑ کر ان سے علیحدہ رہ رہے ہیں۔ (ماشا اللہ ، ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں استقامت بخشے۔ آمین!) اسٹیٹ بینک لاہور کے سینیئر آفسر نے اپنی بیٹی کی شادی کی ، بچے ہونے کے بعد لڑکے نے انکشاف کیا کہ وہ قادیانی ہے۔  چناب بلاک اقبال ٹاؤن لاہور کے مشہور عالم دین کے پاس ایک بچی کی شادی کے سلسلے میں ان کے احباب تشریف لائے اور بتایا کہ یہ لڑکی قادیانیت سے تائب ہونے والے ایک نوجوان سے شادی کرنا چاہتی ہے۔ مگر ہم اس وقت اس کی شادی نہیں کریں گے جب تک آپ اس لڑکے کی تحقیق کر کے ہمیں کلیرنس نہ دیں کہ یہ لڑکا مسلمان ہے۔ حضرت مولانا صاحب نے لڑکے سے بھر پور تحقیق کی ، لڑکا ختم نبوت اور حیات عیسیٰ علیہ اسلام کے عقیدہ کا اقرار کرتا اور مرزا قادیانی کو جھوٹا، مکار، دغا باز قرار دیتا رہا۔ مگر شادی ہونے اور بچے ہونے کے بعد اس لڑکے نے بتایا کہ وہ قادیانی ہے ، وہ مسلمان ہوا ہی نہیں تھا۔  منور سنز کالج روڈ ٹاؤن شپ، لاہور میں الیکٹرونکس کی دکان ہے۔ اس کے مالک کا باپ مرزا قادیانی کے ہاتھ پر قادیانی ہوا تھا۔ اس شخص نے مسلمان عورت سے مسلمان بن کر شادی کی جو اب تک اس کے ساتھ رہ رہی ہے اور مرزا قادیانی کو جھوٹا مانتی ہے۔ اس شخص کے دو لڑکوں شاہد اور ساجد نے دھوکہ دہی سے مسلمان بن کر مسلمان گھرانوں میں شادیاں کر لیں ،پھر جب بچے ہو گئے تو ایک نیا انداز اختیار کیا۔ اپنی بیویوں کو بتایا کہ ہم قادیانیت سے متاثر ہیں اس کو قبول کرنا چاہتے ہیں ۔ آپ بھی تحقیق کر لیں۔ اور پھر مربیوں کو بلا کر ان خواتین کی نشستیں شروع کروا دیں اور ان کو قادیانی کرنے کی کوششیں تیز کر دیں۔ مرکز سراجیہ کی مخلصانہ مساعی سے ان خواتین نے ان قادیانی نوجوانوں سے علیحدگی اختیار کر لی ۔ ( اللہ انہیں بہتر صلہ دے اور استقامت کی توفیق عطا فرمائے ۔آمین) یونیورسٹی آف انجنیئرنگ اینڈ ٹیکنالوجی لاہور کے ایک نوجوان عثمان کا تعلق ڈسکہ کے قریب ایک گاؤں سے ہے۔ وہاں قادیانیوں کا ایک سنٹر ہے۔ وہاں کے مربی اور عملہ کے عثمان کے باپ اور دادا سے تعلقات تھے اور اس کا انجام یہ ہوا کہ وہ دونوں قادیانی ہو گئے۔ دادا تو مرتد ہو کر اسی حالت میں مر چکا ہے مگر باپ نے عثمان کو بھی قادیانی کرنے کی کوشش کی۔ عثمان ،الحمد للہ مضبوط ایمان والا مسلمان ہے اور باپ کو دوبارہ مسلمان کرنے کے لیے کوشاں ہے مگر اس کا باپ قادیانیوں سے تعلقات چھوڑنے پر آمادہ نہیں اور جو بھی دلائل اسے دئیے جاتے ہیں وہ سننے کے لئے تیار نہیں ۔اور کہتا ہے کہ ان مربیوں سے بات کرو یہ مطمئن ہو جائیں گے تو میں بھی مطمئن ہو جاؤں گا۔  ہسپتالوں وغیرہ میں قادیانیوں کا مکروہ دھندہ : قادیانی اپنی فری ڈسپنسریوں، کلینک اور ہسپتال میں علاج معالجہ کے چکر میں بہت سے مسلمانوں کو مرتد کر لیتے ہیں۔ بلال فری ہومیو پیتھک کلینک گڑھی شاہو ، لاہور کے ملازم ڈاکٹر نذر حسین کے بھائی کو اسی ادارے کے مالکان نے قادیانی کیا ۔اور ڈاکٹر نذر حسین کے مزاحمت کرنے پر اسے ملازمت سے نکال دیا۔  خون دینے کے بہانے قادیانی نوجوان مریض کے گھر والوں سے رابطہ بڑھاتے ہیں اور محبت اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرتے ہیں ۔ پھر مریض کے گھر آنا جانا شروع ہو جاتا ہے۔ اور اس خاندان کے قریب ہو کر مسیحا کا روپ دھار کر قادیانیت کی تبلیغ شروع کر تے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں ایمان کے لٹیرے: یونیورسٹیوں ، کالجوں، سکولوں اور ٹیوشن سنٹروں میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی تبلیغی سرگرمیاں مسلمان لڑکے لڑکیوں کے لئے انتہائی مضر ہیں۔ بہت سے واقعات ایسے سامنے آئے ہیں کہ ان اداروں میں تعلیم حاصل کرنے کے لیے آنے والے طالب علم قادیانی کلاس فیلوز سے دوستی کے نتیجے میں ربوہ کی سیر کو چل پڑے اور پھر انہی کے ہاتھوں شکار ہو گئے اور اپنا ایمان لٹا بیٹھے۔ مون مارکیٹ اقبال ٹاؤن میں ایک ادارے میں پڑھنے والا شہزاد نامی نوجوان اپنے 2قادیانی کلاس فیلوز کی دعوت و تبلیغ سے متأثر ہو کر قادیانی ہو گیا۔ مگر بفضل تعالیٰ ختم نبوت کا لٹریچر اور ویب سائٹ وزٹ کرنے کے بعد قادیانیت پر لعنت بھیج کر مسلمان ہو گیا۔  پنجاب میڈیکل کالج PMC فیصل آباد میں قادیانی لڑکے لڑکیوں کی گذشتہ سال تبلیغی سرگرمیاں انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھیں۔ قادیانی لڑکیاں اپنے ہاسٹلوں میں باقاعدہ نوٹس بورڈ لگا کر احمدی درس قرآن کے نام سے پروگرام کرتی تھیں۔ قادیانیوں نے PMC کے سامنے رہائشی سکیم میں ایک دس مرلے کا مکان لے رکھا ہے جہاں مسلمان لڑکے لڑکیوں کو کھلانے پلانے کے بہانے لے جایا جاتا ہے پھر ان کو وہاں عیاشی کروائی جاتی ہے اور ساتھ 20ہزار روپے ماہوار وظیفہ کی پیشکش کی جاتی ہے اور اس کے عوض مطالبہ یہ ہوتا ہے کہ بے شک آپ اندر سے مسلمان رہیں مگر ہمارا بیعت فارم پُر کرکے وظیفہ حاصل کر سکتے ہیں ۔ یہاں کے بہت سے مسلمان لڑکے لڑکیوں کی ایمان لٹنے کی داستانیں انتہائی افسوسناک اور ہولناک ہیں ۔اور اس سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ انہیں روکنے والا کوئی نہیں۔  لاہور کا عثمان قادیانیوں سے تعلقات کی بناء پر ان کے اس دجل و فریب میں آ گیا کہ مرزا قادیانی کے بارے میں استخارہ کر لیا جائے پھر وہ استخارہ کر کے ہمیشہ کے لئے مرتد ہو گیا اور اپنے دوستوں عزیزوں کو مرزائی بنانے کے لئے دن رات کوشاں رہتا ہے۔  اچھرہ کے معروف ٹھیکیدار کا بیٹا اعلیٰ تعلیم کے لئے لندن گیا۔ وہاں سے ایک قادیانی خاندان نے اس سے رشتے کے لئے رابطہ کیا۔ جب ٹھیکیدار صاحب نے قادیانیت کی بنیاد پر انکار کیا تو انہوں نے بتایا کہ تمہارا بیٹا یہاں آ کر ہمارے ساتھ اٹھتا بیٹھتا تھا اور اب وہ ہمارے عقیدے پر ہے اور ہماری مرضی سے چلے گا۔ اب ہم اس کی شادی کر رہے ہیں ہم تو صرف تمہیں دعوت دے رہے ہیں کہ تم شادی میں شریک ہونا چاہتے ہو تو ہو جاؤ۔  جوانی کے ہتھیار سے مسلمان لڑکیوں اور لڑکوں کے ایمان کی لوٹ مار :  ایک شخص فون پر رو رہا تھا۔ اور روتے ہوئے بتا رہا تھا کہ میری بیٹی پنجاب یونیورسٹی میں پڑھتی ہے وہ قادیانی ہو گئی ہے اور لاکھ سمجھانے کے باوجود اس نے مرزائی لڑکے سے شادی کر لی ہے ۔ (معلوم ہوا ہمیں اولاد کے اعمال کے ساتھ عقائد کی نگرانی بھی کرنی چاہیے۔ ادارہ )  بوڑھی اماں ابھی ہم سو رہے ہیں: چوہدری کالونی سمن آباد کا جلیل پیسے اور نوکری کی لالچ میں سمن آباد کی قادیانی جماعت کے ہاتھوں مرتد ہوا اور اپنی بیوی کو بھی قادیانی بنا لیا۔ اس کی ماں تمام مسلمانوں سے اپیل کرتی ہے کہ کوئی ہے جو میرے اس بیٹے کا ایمان بچا لے میں انتظار میں ہوں۔ (لیکن بھوڑی اماں ! ابھی ہم سو رہے ہیں جلیل کے ساتھ نظر آنے والے 5،7 نوجوان وہ ہیں جو قادیانی ہو چکے ہیں اور انہوں نے ابھی تک اپنے گھروں میں بتایا بھی نہیں ہے۔   ربوہ سے خوبصورت لباس اور میک اپ کر کے نکلنے والی خوبصورت لڑکیاں ٹرینوں اور بسوں میں سوار سرگودھا سے فیصل آباد کے روٹ اور ارد گرد کے دیہاتوں میں پھیل جاتی ہیں اور جوانی کے ہتھیاروں سے لیس ہو کر دعوت ارتداد دیتی ہیں اور سینکڑوں لوگوں کو شکار کر چکی ہیں۔ افسوس ان سینکڑوں لوگوں کا شکار روکنے والا کوئی نہیں۔ ملک کے مختلف حصوں میں قادیانی لڑکیوں کی تبلیغی جماعتیں اسی طرح نکلتی ہیں۔  ٹریول ایجنٹ یا کفار کے ایجنٹ؟ کچھ بد قسمت ٹریول ایجنٹ مسلمانوں کو قادیانیت کی بنیاد پر باہر بھیجنے کی ترغیب دے کر بیعت فارم پُر کرواتے ہیں، پھر قادیانی ظاہر کر کے بیرون ممالک کا ویزہ لگواتے ہیں اور چند روپوں کی خاطر ان کا ایمان ضائع کر دیتے ہیں۔یہ بہت سے لوگوں کو مرتد کر کے باہر بھجوا چکے ہیں۔   قادیانیوں کے دنیا بھر میں اجتماعات منعقد ہوتے ہیں اور جمعہ کے دن بھی ان کا ہر علاقے میں اجتماع ہوتا ہے۔ ان اجتماعات میں وہ مسلمانوں کو لازمی لے کر آتے ہیں۔ ان اجتماعات میں شرکت کرنے والے مسلمان کچھ عرصہ بعد قادیانیت کا حصہ نظر آتے ہیں۔  رفاہی کاموں کی آڑ میں مرزائیو ں کی تبلیغی سر گرمیاں: قادیانی سماجی بہبود اور این جی اوز کے ذریعے اپنے خاص مقاصد کے حصول کے لیے ہر اس جگہ پہنچ جاتے ہیں جہاں کوئی قدرتی آفت، مصیبت یا حادثہ پیش آتا ہے۔ حادثات میں لوگوں کا مال، گھر بار، جانوں کا نقصان تو پہلے ہی ہو چکا ہوتا ہے۔ اوپر سے ان مظلوموں کی اس مصیبت اور پریشانی کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایمان کے ڈاکو اپنے ارتدادی ہتھیاروں کے ساتھ وہاں حاضر ہو جاتے ہیں ۔اور جو جو لوگ ایمان بیچنا چاہیں ان کو اچھی خاصی مراعات دی جاتی ہیں۔ بے سہارا لوگوں کی کفالت کر کے ان کو اپنے دائرے میں شامل کرتے ہیں۔  اوجڑی کیمپ (1988ئ) میں قادیانیوں نے بھر پور کام کیا۔ 2005ء بالا کوٹ میں آنے والے زلزلے میں جہاں تمام مسلمان ان کی امداد کے لئے سر گرم تھے وہاں قادیانی بھی ارتدادی سرگرمیوں کو پھیلانے کے لئے بھرپور کام کر رہے تھے اور ایمان لٹانے والوں کو مراعات کی پیشکش کر کے ورغلایا جاتا رہا اور متعدد مسلمانوں کو قادیانی بنایا گیا ۔آج ربوہ میں پٹھان مربّی بننے کی تربیت لیتے نظر آتے ہیں اور پٹھانوں کے علاقوں میں قادیانیوں کی بڑھتی ہوئی تعداد تشویش ناک ہے۔ اس وقت سوات اور گردو نواح کے مصیبت زدگان مسلمان بھائیوں میں تبلیغ اور بیعت فارم بھروانے کے لئے قادیانی بھرپور سر گرم عمل ہیں اور ان کی بہت سی ’’این جی اوز‘‘ وہاں اپنے مقاصد کے حصول کے لئے کام کررہی ہیں۔  اسی طرح عیسائیوں کی طرح مرزائی بھی ایسے علاقوں کا انتخاب کرتے ہیں جہاں کے مسلمان غریب ، جاہل اور بے دین ہوتے ہیں جیسا کہ سندھ کے پسماندہ علاقے ہیں۔ وہاں مسلمانوں کے سوا ہر مذہب بڑی تیزی سے اپنی طبع آزمائی کر رہا ہے۔  بیواؤں اور یتیموں کی امداد کے ذریعے بھی قادیانی مسلمانوں کا ایمان لوٹتے ہیں۔ ایک گھرانے کا کفیل مسلمان فوت ہو گیا۔ اس کی بیوہ اپنے تین بچوں کے تعلیمی اخراجات برداشت نہ کر سکی اور سکول سے انہیں اٹھا لیا۔ ان بچوں میں سے ایک بچے کا کلاس فیلو بچہ قادیانی تھا۔ اس قادیانی بچے کے باپ نے موقع کو غنیمت جانا اور بیوہ کی مالی امداد شروع کر دی۔ بچوں کی تعلیم جاری کروانے کے علاوہ خرچہ کی ذمہ داری بھی اٹھائی اور بیوہ کو مزید مستقل مالی امداد بہم پہنچانی شروع کر دی۔ آج وہ بیوہ مع خاندان اس شخص کی تبلیغ سے قادیانی ہو چکی ہے۔اور ظاہر ہے اس کے بچے بھی قادیانی ہی بنیں گے۔ (اللہ محفوظ رکھے۔ آمین) نوٹ: اس طرح کے واقعات بہت زیادہ ہیں ۔جہاں بھی کو ئی گروپ ، جماعت فتنہ قادیانیت کے خلاف کام کر رہی ہے ان سے رابطہ کرنے پر بہت سے واقعات مل سکتے ہیں۔ ہر یونیورسٹی ، کالج اور ہسپتال میں ایسے واقعات رونما ہوتے رہتے ہیں۔  اس موضوع پر محترم محمد متین خالد حفظ اﷲ کی کتاب ’’قادیانیت ایک ’’دہشت گرد تنظیم ‘‘کا مطالعہ بھی فائدہ مند رہے گا۔ مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ دینی اور رفاہی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیں۔ اور اس کام کو اتنا پھیلائیں کہ مسلمانوں کو ان مرتدوں کے جال میں پھنسنے کا موقع ہی نہ ملے۔